چھڑا کر پستیاں ہمسایۂِ افلاک کر ڈالا | خوبصورت نعتیہ کلام


 

چھڑا کر پستیاں ہمسایۂِ افلاک کر ڈالا

مقدر میں مجھے راہِ نبی کی خاک کر ڈالا

 

یہ میرے ذہن کی مٹی اگرچہ باہنج تھی پہلے

مزاجِ سنگ کو پھر آپ نے نم ناک کر ڈالا

 

زمیں پر آمنہ کے چاند کی جب رو نمائی تھی

فلک پر چاند نے اپنا گریباں چاک کر ڈالا

 

غلاظت لے کے آنکھوں میں کبھی کا سو رہا تھا میں

انہوں نے خواب میں آ کر نظر پاک کر ڈالا

 

جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم | jane kab hon ggai kam is duunya kai ghgam lyrics


 

جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم

جینے والوں پہ سدا بے جرم و خطا ہوتے آئے  ہیں ستم

 

 کیا جس نے گلہ ملی اور سزا

کئی بار ہوا یہاں خون وفا

بس یہی ہے صلہ

دل والوں نے دیا

یہاں دار پے دم

 

 جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم

 

کوئی آس نہیں

 احساس نہیں

دریا بھی ملا

 بھجی پیاس نہیں

اک ہم ہی نہیں،

جسے دیکھو یہاں

وہی آنکھ ہے نم

 

جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم

جینے والوں پے سدا بے جرم و خطا ہوتے رہے ہیں ستم

جندڑی لٹی تئیں یار سجن jindari lutti lyrics


 

جندڑی لٹی تئیں یار سجن

کدیں موڑ مہاراں تے آ وطن

 

تییر روہی دیاں کندھاں کالیاں

میڈیاں ڈکھن کناں دیاں والیاں

اساں راتاں ڈکھاں وچ جالیاں

روہی بنائوئی چا وطن

 

تری روہی دی عجب بہار دسے

جتھے میں نمانی دا یار ڈسے

جتھاں عاشق لکھ‍ ہزار ڈسے

اتھاں میں مسافر بے وطن

 

تیڈی روہی دے کنڈڑے بیریاں

وے جھوکاں آ وساں ہن میریاں

وے میں تیری آں وے میں تیری آں

وے روہی بنائیوای جا وطن

 

کدی یار فرید آوے ہاں

مینڈی اجڑی جھوک وساوے ہاں

میں روندی کوں گل لاوے ہاں

کیوں جا بنائیوئی کیچ وطن

رکھ کے لب اسم محمد پہ اٹھاتا بھی نہ تھا


 

رکھ کے لب اسم محمد پہ اٹھاتا بھی نہ تھا

جب مجھے نام نبی ٹھیک سےآتا بھی نہ تھا

 

آپ پہلے ہی معافی اسے دے دیتے تھے

منتیں کر کے منانا جسے آتا بھی نہ تھا

 

تھام لیتا تھا کوئی وقتِ ملاقات جو ہاتھ

کیسا آقا تھا کبھی ہاتھ چھڑاتا بھی نہ تھا

 

آپ ہی آپ اترتے تھے ملائک کے ہجوم

وہ عجب شاہ تھا دربار سجاتا بھی نہ تھا

 

آپ اس کی بھی سنا کرتے تھے پہروں باتیں

وہ جسے پاس کوئی اپنے بٹھاتا بھی نہ تھا

 

آپ کاندھوں پہ نواسے لیے چل پڑتے تھے

گود میں جب کوئی بچوں کو اٹھاتا بھی نہ تھا

 

مجھ پہ بھی چشم کرم اے میرے آقا کرنا | تضمین بر کلام پیر نصیر الدین نصیر شاہ رحمۃ اللہ علیہ

 

کالی کملی میں اس امت کو چھپایا کرنا

ان کی عادت ہے کہ عاصی کو نبھایا کرنا

میں برا ہوں تو کرم سے مجھے اچھا کرنا

مجھ پہ بھی چشم کرم اے میرے آقا کرنا

حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضا کرنا

 

میں سوالی ہوں میرے حق میں اشارہ دینا

میں بھنور میں ہوں میرے شاہ کنارہ دینا

میں ہوں بے چین مجھے چین خدارا دینا

میں ہوں بے کس تیرا شیوہ ہے سہارا دینا

میں ہوں بیمار تیرا کام ہے اچھا کرنا

 

 

سارے عالم کو ملا فیض جو تیرے گھر سے

یہ ہے وہ ابر کرم سب پہ برابر برسے

کیوں گدا تیرا کسی چیز کی خاطر ترسے

تو کسی کو بھی اٹھاتا نہیں اپنے در سے

کہ تیری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا

 

میں نہیں کہتا مجھے کم یا زیادہ دے دے

جتنا اچھا لگے تجھ کو مجھے اتنا دے دے

اے کریم آل کا تیری مجھے صدقہ دے دے

میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعت صحرا دے دے

کہ تیرے بس میں قطرے کو بھی دریا دینا

 

جن رحمت ہے کثیر ان کی نظر پڑ ہی گئی

جن کے در کا ہوں فقیر ان کی نظر پڑ ہی گئی

کیوں مدثر ہو حقیر ان کی نظر پڑ ہی گئی

مجھ پہ محشر میں نصیر ان کی نظر پڑ ہی گئی

کہنے والے اسے کہتے ہیں خدا کا کرنا


لحد میں وہ صورت دکھائی گئی ہے | کلیات نصیر الدین نصیر شاہ رحمۃ اللہ علیہ


 

لحد میں وہ صورت دکھائی گئی ہے

مری سوئی قسمت جگائی گئی ہے

 

نہیں تھا کسی کو جو منظر پہ لانا

تو کیوں بزمِ عالم سجائی گئی ہے

 

صبا سے نہ کی جائے کیوں کر محبت

بہت اُن کے کوچے میں آئی گئی ہے

 

یہ کیا کم سند ہے مری مغفرت کی

ترے در سے میت اُٹھائی گئی ہے

 

وہاں تھی فدا مصر میں اک زلیخا

یہاں صدقے ساری خدائی گئی ہے

 

گنہگار اُمت پہ رحمت کی دولت

سرِحشر کھل کر لٹائی گئی ہے

 

شراب طہور اُن کے دست کرم سے

سرِ حوض کوثر پلائی گئی ہے

 

تہ خاک ہو شاد کیوں کر نہ اُمت

نبی کی زیارت کرائی گئی ہے

 

کسے تاب نظارہ جالی کے آگے

نظر احتراماً جھکائی گئی ہے

 

نصیر اب چلوقبرسے تم بھی اُٹھ کر

اُنہیں دیکھنے کو خدائی گئی ہے

مجھ پہ بھی چشم کرم اے میرے آقا کرنا | کلام پیر نصیر الدین نصیر شاہ | کلیات نصیر


 

کالی کملی میں اس امت کو چھپایا کرنا

ان کی عادت ہے کہ عاصی کو نبھایا کرنا

میں برا ہوں تو کرم سے مجھے اچھا کرنا

مجھ پہ بھی چشم کرم اے میرے آقا کرنا

حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضا کرنا

 

میں سوالی ہوں میرے حق میں اشارہ دینا

میں بھنور میں ہوں میرے شاہ کنارہ دینا

میں ہوں بے چین مجھے چین خدارا دینا

میں ہوں بے کس تیرا شیوہ ہے سہارا دینا

میں ہوں بیمار تیرا کام ہے اچھا کرنا

 

 

سارے عالم کو ملا فیض جو تیرے گھر سے

یہ ہے وہ ابر کرم سب پہ برابر برسے

کیوں گدا تیرا کسی چیز کی خاطر ترسے

تو کسی کو بھی اٹھاتا نہیں اپنے در سے

کہ تیری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا

 

میں نہیں کہتا مجھے کم یا زیادہ دے دے

جتنا اچھا لگے تجھ کو مجھے اتنا دے دے

اے کریم آل کا تیری مجھے صدقہ دے دے

میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعت صحرا دے دے

کہ تیرے بس میں قطرے کو بھی دریا دینا

 

جن رحمت ہے کثیر ان کی نظر پڑ ہی گئی

جن کے در کا ہوں فقیر ان کی نظر پڑ ہی گئی

کیوں مدثر ہو حقیر ان کی نظر پڑ ہی گئی

مجھ پہ محشر میں نصیر ان کی نظر پڑ ہی گئی

کہنے والے اسے کہتے ہیں خدا کا کرنا

sarkar ka roza hai chup chaap | سرکار کا روضہ ہے چپ چاپ کھڑے رہنا


 

سرکار کا روضہ ہے چپ چاپ کھڑے رہنا

جب تک نہ ملے معافی قدموں میں پڑے رہنا

 

کرنا نا صلح یارو گستاخ محمدﷺ سے

سرکار کے دشمن سے ہر وقت لڑے رہنا

 

ابلیس تو روکے گا کہ نہ جانا مدینے میں

اے زائر بطحا تم بس آگے بڑھے رہنا

 

بڑھنے دو محمدﷺ کے سجدے کی طوالت کو

اے ابن علی دیکھو کاندھوں پہ چڑھے رہنا

 

عباس یہ کہتے تھے شبیر کے جھنڈے سے

ہے قسم تجھے میری تا حشر گڑے رہنا

 

سرکار کی نسبت سے ہوتا ہے بڑا بندہ

تم ہو تو بڑے حاکم ایسے ہی بڑے رہنا

 

دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا | فاروق روکھڑی کی مشہور غزل


 

فاروق روکھڑی کی مشہور غزل

 

دل    کے   معاملات   سے    انجان     تو    نہ   تھا

اس   گھر   کا   فرد   تھا  کوئی  مہمان  تو  نہ  تھا

 

تھیں  جن  کے  دَم  سے رونقیں شہروں میں جا بسے

ورنہ     ہمارا   گاؤں    یوں    ویران    تو    نہ    تھا

 

بانہوں   میں   جب    لیا   اسے    نادان   تھا   ضرور

جب    چھوڑ   کر   گیا    مجھے   نادان   تو   نہ  تھا

 

کٹ    تو    گیا   ہے    کیسے    کٹا    یہ   نہ   پوچِھیے

یارو!      سفر      حیات     کا     آسان    تو   نہ   تھا

 

نیلام      گھر      بنایا      نہیں    اپنی      ذات     کو

کمزور      اس    قدر     میرا     ایمان    تو    نہ   تھا

 

رسماً   ہی  آ     کے     پوچھتا     فاروقؔ    حالِ   دل

کچھ  اس  میں  اس  کی  ذات  کا  نقصان  تو نہ تھا

فاروق روکھڑی

اساں ہور بھلا رب توں کی لینا جے چناں سانوں توں مل جائیں


 

اساں ہور بھلا رب توں کی لینا جے چناں سانوں توں مل جائیں

تینوں گل دا بنا کے رکھاں گہنا جے چناں سانوں توں مل جائیں

دل وچ تیرا پیار وسا کے  ویکھی جانا کول بٹھا کے

تیری زلفاں دی چھاویں ہو کے بہنا جے چناں سانوں توں مل جائیں

 

سجناں پیار تیرے نال کرنا دنیا کولوں مول نہ ڈرنا

پیندا رہوے جے زمانے ویر پینا جے چناں سانوں توں مل جائیں

 

ہر دم تیریاں لوڑاں مینوں اکھیاں نے بس چن لیا تینوں

تیری مننی اساں نہیں کجھ کہنا جے چناں سانوں توں مل جائیں

 

تیرے باہج نہ سجدے ویڑے وس  اکھیاں دے نیڑے نیڑے

دل کہندا تیتھوں دور نئیوں رہنا جے چناں سانوں توں مل جائیں

 

رب کرے جے کول توں آویں آجاویں تے مڑ نہ جاویں

جوگی کہوے نہ وچھوڑا کدی سہنا جے چناں سانوں توں مل جائیں

گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں


 

گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں

 جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر دوستوں کے لگائے ہوئے ہیں


جب سے دیکھا ترا قد و قامت دل پہ ٹوٹی ہوئی ہے قیامت

ہر بلا سے رہے تو سلامت دن جوانی کے آئے ہوئے ہیں


 اور دے مجھ کو دے اور ساقی ہوش رہتا ہے تھوڑا سا باقی

آج تلخی بھی ہے انتہا کی آج وہ بھی پرائے ہوئے ہیں


 کل تھے آباد پہلو میں میرے اب ہیں غیروں کی محفل میں ڈیرے

 میری محفل میں کر کے اندھیرے اپنی محفل سجائے ہوئے ہیں


اپنے ہاتھوں سے خنجر چلا کر کتنا معصوم چہرہ بنا کر

اپنے کاندھوں پہ اب میرے قاتل میری میت اٹھائے ہوئے ہیں


مہ وشوں کو وفا سے کیا مطلب ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب

 ان کی معصوم نظروں نے ناصرؔ لوگ پاگل بنائے ہوئے ہیں

روتی چھوڑ کے برہن کو کس سوتن کے دوار گئے | Roti chor ke mujh birhan ko


 

روتی چھوڑ کے برہن کو کس سوتن کے دوار گئے

تکتے تکتے راہ تہاری نین ہمارے ہار گئے

 

ڈوب گیا ہر ایک کنار طوفانی  اندھیاروں میں

بیچ بھنور میں چھوڑ کے نیا تم کت کھیون ہار گئے

 

من سے من کا سودا کر کے جیون کا سکھ چھین لیا

تم جھوٹے سودا گر نکلے جھوٹا کر بیوپار گئے

 

پلکوں پر جل دیپ جلا کر نین بچھے ہیں راہوں میں

آجاؤ پردیسی بالم تم جیتے ہم ہار گئے

 

مانگ مری سندور کو ترسے نیناں ترسیں کاجل کو

روٹھ کے مجھ سے سنگ تہارے سارے ہار سنگار گئے

 

ساحل سے ٹکرا ٹکرا کر نیا اپنی ڈوب گئی

منزل پا کر منزل کھوئی جیت کے بازی ہار گئے

 

نین ملائے تھے تو رکھتے لاج بھی نین ملانے کی

نین چرا کر کیوں برہن کے تیر کلیجے مار گئے

 

نیناں جادو ڈار کے کس کے روپ نے تم کو بھرمایا

کس بیرن کے بس میں آئے کس سوتن کے دوار گئے

تو ستم گار ہے میں ستم آشنا رنج میں مسکرانا میرا کام ہے | Tu Sitam Gaar hai Men Sitam aAshna | Nusrat Fateh Ali Khan


 

تو ستم گار ہے میں ستم آشنا رنج میں مسکرانا میرا کام ہے

زخم پر زخم دینا تیرا مشغلہ زخم ہس ہس کے کھانا میرا کام ہے

 

آ ادھر تجھ پہ قربان میرا جنوں اپنے حصے کی خوشیاں تجھے بخش دوں

تو ستم گر ہے پھر بھی میرا دوست ہے دوست کے کام آنا میرا کام ہے

 

دل پہ گن گن کے ڈھانا ستم پر ستم اور پھر یاد رکھنا تیرا کام ہے

دل پہ گن گن کے تیرے ستم جھیلنا اور پھر بھول جانا میرا کام ہے

لکھ دیا اپنے در پر کسی نے اس جگہ پیار کرنا منع ہے | likh dia apny dar pe | Nusrat Fateh Ali khan Ghazals |


 

حسن والے وفا نہیں کرتے  عشق والے دغا نہیں کرتے

ظلم کرنا تو ان کی عادت ہے     یہ کسی کا بھلا نہیں کرتے

 

لکھ دیا اپنے در پر کسی نے اس جگہ پیار کرنا منع ہے

 پیار اگر ہو بھی جائے کسی کو اس کا اظہار کرنا منع ہے

ان کی محفل میں جب کوئی جائے پہلے نظریں وہ اپنی جھکائے

 وہ صنم جو خدا بن گئے ہیں ان کا دیدار کرنا منع ہے

جاگ اٹھے تو آہیں بھریں گے حسن والوں کو رسوا کریں گے

سو گئے  ہیں جو فرقت کے مارے ان کو بیدار کرنا منع ہے

ہم نے کی عرض اے بندہ پرور کیوں ستم ڈھا رہے ہو یہ مجھ پر

بات سن کر ہماری وہ بولے ہم سے تکرار کرنا منع ہے

سامنے جو کھلا ہے جھروکہ کھا نہ جانا کبھی اس  کا دھوکا

اب بھی اپنے لیے اس گلی میں شوق دیدار کرنا منع ہے