حرم ہے کیا چیز دیر کیا ہے کسی پہ میری نظر نہیں ہے men tere jalwon men kho gia


 حرم ہے کیا چیز دیر کیا ہے کسی پہ میری نظر نہیں ہے

میں تیرے جلووں میں کھو گیا ہوں مجھے اب اپنی خبر نہیں ہے


جنہیں ہے ڈر راہ امتحاں سے انہیں ابھی یہ خبر نہیں ہے

اگر کرم ان کا راہبر ہو کٹھن کوئی رہ گزر نہیں ہے


تری طلب تیری آرزو میں نہیں مجھے ہوش زندگی کا

 جھکا ہوں یوں تیرے آستاں پر کہ مجھ کو احساس سر نہیں ہے


جہاں بھی ہے کوئی مٹنے والا تری عنایت کے سائے میں ہے

 بنا لیا جس کو تو نے اپنا جہاں میں وہ در بدر نہیں ہے


بہ شوق سجدہ چلے ہیں لیکن عجیب مسلک ہے عاشقوں کا

 وہاں عبادت حرام ٹھہری جہاں ترا سنگ در نہیں ہے


ہر اک جگہ تو ہی جلوہ گر ہے وہ بت کدہ ہو یا طور سینا

 نگاہ دنیا ہے کور باطن تری تجلی کدھر نہیں ہے


تری نوازش مری مسرت مری تباہی جلال تیرا

کہیں نہیں ہے مرا ٹھکانہ جو تیری سیدھی نظر نہیں ہے


 یہیں پہ جینا یہیں پہ مرنا یہیں ہے دنیا یہیں ہے

عقبیٰ فناؔ در یار کے علاوہ کہیں ہمارا گزر نہیں ہے

چاند تاروں سے کروں باتاں تیری باتاں تیری | chand taron se kron batan teri


 

چاند تاروں سے کروں باتاں تیری باتاں تیری

دن ہیں میرے اور ہیں راتاں تیری راتاں تیری

 

بارہا دل نے یہ سمجھایا مجھے

میں ہوں چھوٹاں اور بڑی ذاتاں تیری ذاتاں تیری

 

دل پریشان جان بے کل آنکھ نم

یاد ہیں سب کو ملاقاتاں تیری

 

چاند تارے پاس آ بیٹھے میرے

میں نے چھیڑیں رات جب باتاں تیری باتاں تیری

 

مکمل ہو گئی نعمت رسالت ختم ہوتی ہے | یونس تحسین شاعری |ختم نبوت شاعری


 

مکمل ہو گئی نعمت رسالت ختم ہوتی ہے

حبیب کبریا تجھ پہ نبوت ختم ہوتی ہے


تمہارے واسطے بزمِ دو عالم کو سجایا تھا

تمہارے بعد دنیا کی صدارت ختم ہوتی ہے


تمہاری ذات کے ہوتے کسی کی بات لایعنی

تمہاری بات پر ساری شریعت ختم ہوتی ہے


وہاں پہلا قدم رکھا تیرے نورانی پیکر نے

جہاں پر نسل انسانی کی عظمت ختم ہوتی ہے


تمہارے آشیانے پر طہارت کی سند اتری

تمہاری آل سے آگے طہارت ختم ہوتی ہے


وہاں سے والضحی کے چہرے کا جلوہ ضو پکڑتا ہے

جہاں پہ ساری دنیا کی بصارت ختم ہوتی ہے


ہمارے واسطے ختم نبوت اصل ایماں ہے

جو منکر ہے وہ کافر ہےوضاحت ختم ہوتی ہے

یونس تحسین

عشق میں آیا وہ مقام آخر | ishq me aaya wo maqam aakhir


 

عشق میں آیا وہ مقام آخر

خود کے جلوے میں ہے امام آخر

 

تم سے مل کر ملے خدا سے ہم

سوزِ ہجراں کے ٹوٹے جام آخر

 

جان دے دیں گے تیرے غم میں ہم

عشق تیرے میں غلام آخر

 

خاک اڑائی ہے فلک تک میری

عشق نے یوں کیا ہے کام آخر

 

آنکھ نے دیکھی حقیقت تو

بت کدے ٹوٹےہیں تمام آخر

 

ہم تو پڑھتے رہے کلام تیرا

ہو گئے آپ ہم کلام آخر

برباد کیوں کیا ہے | کیا دل میرا نہیں تھا تمہارا جواب دو! | پیر نصیر الدین نصیر شاہ رحمۃ اللہ علیہ


 

کیا دل میرا نہیں تھا تمہارا، جواب دو!

برباد کیوں کیا ہے؟ خدارا جواب دو!

کیا تم نہیں ہمارا سہارا، جواب دو!

آنکھیں ملاؤ ہم کو ہمارا جواب دو!

 کل سے مراد صبحِ قیامت سہی، مگر

 اب تم کہاں ملو گے دوبارہ جواب دو!

چہرہ اداس، اشک رواں، دل ہے بے سکوں

میرا قصور ہے کہ تمہارا جواب دو!

دیکھا جو شرم سار الٹ دی بساط شوق

یوں تم سے کوئی جیت کے ہارا جواب دو!

میں ہو گیا تباہ تمہارے ہی سامنے

 کیونکر کیا یہ تم نے گوارا، جواب دو!

تم ناخدا تھےاور طلاطم سے آشنا

کشتی کو کیوں ملا نہ کنارہ جواب دو!

شام آئی، شب گزر گئی، ہونے لگی سحر

 تم نے کہاں یہ وقت گزارا، جواب دو!

دریا کے پار عہد وہ کچھ یاد ہیں تمہیں؟

وہ شب وہ چاندنی وہ کنارہ جواب دو!

لو تم کو بھی بلانے لگے ہیں نصیرؔ وہ

 بولو ارادہ کیا ہے تمہارا، جواب دو!

کلام: پیر نصیر الدین نصیر شاہ رحمۃ اللہ علیہ

میں کہیں بھی جاوں اے جاں میرا انتظار کرنا


 

میں کہیں بھی جاوں اے جاں میرا انتظار کرنا

میرے بعد پھر کسی سے کبھی تم نہ پیار کرنا

 

میرا نام جن لبوں  پہ کبھی کھیلتا تھا برسوں

میری جان میں وہی ہوں میر ااعتبار کرنا

 

تو نگارِ زندگی تھا تو بہارِ زندگی تھا

مجھے یاد ہے ابھی تک تیرا بے قرار کرنا

 

تو بذاتِ خود نشہ ہے تو مثالِ میکدہ ہے

تیرا خود سے منہ چھپانا مجھے شرم سار کرنا

 

تو اگر بھٹک بھی جائے تیرے پاس ہے وہ رستہ

جسے نور نے دکھایا وہی اختیار کرنا

 

کہتے ہو مجھ سے عشق افسانہ چاہیے | قمر جلالوی


 

کہتے ہو مجھ سے عشق افسانہ چاہیے

رسوائی ہو گی آپ کو شرمانہ چاہیے

 

خود ار اتنی  فطرتِ رندانہ چاہیے

ساقی بھی خود کہے کوئی پیمانہ چاہیے

 

عاشق بغیر حسن و جوانی فضول ہے

 جب شمع جل رہی ہو تو پروانہ چاہیے

 

مٹی خراب کرتے ہو کیوں بیمارِ ہجر کی

جو تم پہ مر گیا اسے دفنانہ چاہیے

 

آنکھوں میں دم رکا ہےکسی کے لیے ضرور

ورنہ مریضِ ہجر کو مر جانا چاہیے

 

وعدہ اندھیری رات میں آنے کا اے قمرؔ

اب چاند چھپ گیا انہیں آ جانا چاہیے

قمر جلالوی