رکھ کے لب اسم محمد پہ اٹھاتا بھی نہ تھا


 

رکھ کے لب اسم محمد پہ اٹھاتا بھی نہ تھا

جب مجھے نام نبی ٹھیک سےآتا بھی نہ تھا

 

آپ پہلے ہی معافی اسے دے دیتے تھے

منتیں کر کے منانا جسے آتا بھی نہ تھا

 

تھام لیتا تھا کوئی وقتِ ملاقات جو ہاتھ

کیسا آقا تھا کبھی ہاتھ چھڑاتا بھی نہ تھا

 

آپ ہی آپ اترتے تھے ملائک کے ہجوم

وہ عجب شاہ تھا دربار سجاتا بھی نہ تھا

 

آپ اس کی بھی سنا کرتے تھے پہروں باتیں

وہ جسے پاس کوئی اپنے بٹھاتا بھی نہ تھا

 

آپ کاندھوں پہ نواسے لیے چل پڑتے تھے

گود میں جب کوئی بچوں کو اٹھاتا بھی نہ تھا