Pages - Menu

گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں


 

گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں

 جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر دوستوں کے لگائے ہوئے ہیں


جب سے دیکھا ترا قد و قامت دل پہ ٹوٹی ہوئی ہے قیامت

ہر بلا سے رہے تو سلامت دن جوانی کے آئے ہوئے ہیں


 اور دے مجھ کو دے اور ساقی ہوش رہتا ہے تھوڑا سا باقی

آج تلخی بھی ہے انتہا کی آج وہ بھی پرائے ہوئے ہیں


 کل تھے آباد پہلو میں میرے اب ہیں غیروں کی محفل میں ڈیرے

 میری محفل میں کر کے اندھیرے اپنی محفل سجائے ہوئے ہیں


اپنے ہاتھوں سے خنجر چلا کر کتنا معصوم چہرہ بنا کر

اپنے کاندھوں پہ اب میرے قاتل میری میت اٹھائے ہوئے ہیں


مہ وشوں کو وفا سے کیا مطلب ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب

 ان کی معصوم نظروں نے ناصرؔ لوگ پاگل بنائے ہوئے ہیں

No comments:

Post a Comment